برصغیر میں برطانوی مظالم کا عجائب گھر

  • February 7, 2018 11:00 pm PST
taleemizavia single page

ترجمہ: محمد ابراہیم خان

شَشی تھرور بھارتی پارلیمان کے رکن ہیں۔ انہوں نے زیر نظر مضمون میں اس نکتے پر زور دیا ہے کہ اہل بھارت کو نوآبادیاتی دور کے حوالے سے اپنا ذہن صاف کرلینا چاہیے۔ اُن کا استدلال ہے کہ نوآبادیاتی طاقتوں کی طرف سے متعارف کرائی جانے والی جدید ترین اشیا و رجحانات اور اُن کے ہاتھوں معرض وجود میں لائی جانے والی عمارتیں جتنے مثبت نتائج پیدا کرنے میں کامیاب ہوئیں اُن سے کہیں زیادہ منفی اثرات اُن کی طرزِ حکمرانی نے پیدا کیے۔

میں نے حال ہی میں مرکزی حکومت کو لکھا ہے کہ ملک میں برطانوی دور کی سب سے نمایاں علامت یعنی کولکتہ کی وکٹوریہ میموریل کو عجائب گھر میں تبدیل کردیا جائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ جس برطانوی دور کے اِس قدر گن گائے جاتے ہیں اُس کے دوران برصغیر کے لوگوں پر کتنے مظالم ڈھائے گئے۔

اُنیس سو سات اور 1921 کے دوران تعمیر کی جانے والی یہ عظیم عمارت برطانوی دور کی عظمت کا فسانہ سناتی ہے۔ میں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ اس عمارت کو ایک ایسے عجائب گھر میں تبدیل کیا جائے جو برطانوی دور کی اصلیت دنیا پر واضح کرے یعنی یہ بات کھل کر سامنے لائی جاسکے کہ برطانوی سامراج نے برصغیر سے کیا سلوک کیا تھا، کیسی کیسی نا انصافیاں روا رکھی تھیں۔ جب برطانوی سلطنت نے برصغیر کو فتح کیا تھا تب وہ دنیا کی امیر ترین ریاستوں میں سے تھا۔ 1800 عیسوی میں عالمی پیداوار میں بھارت کا حصہ 28 فیصد تھا۔ ڈھائی صدیوں کی لُوٹ مار کے بعد جب برطانوی حکمران یہاں سے رخصت ہوئے تب برصغیر کا شمار دنیا کے غریب ترین اور ناخواندہ ترین ممالک میں ہوتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں؛ نوآبادیاتی نظام کے فوائد کی حقیقت

ہمیں برطانوی دور سے متعلق کسی عجائب گھر کی ضرورت آخر کیوں ہے؟

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ہندوستان پر برطانوی راج سے متعلق کوئی عجائب گھر برصغیر میں ہے نہ برطانیہ میں۔ لندن میں بہت سے عجائب گھر ہیں۔ امپیریل وار میوزیم میں برطانوی استعماری دور کی فتوحات اور کامیابیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم کے علاوہ برٹش میوزیم میں بھی بھارت سے لُوٹی ہوئی بہت سی نادر اشیا رکھی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری دولت کو برطانوی حکمرانوں نے کس طور لوٹا اور کس طور ہمیں انتہائی پس ماندہ کرکے یہاں سے رخصت ہوئے۔

برصغیر میں کپڑا سازی کی صنعت عالمگیر شہرت کی حامل تھی۔ بنگال کے جولاہے اعلیٰ درجے کی ململ تیار کرنے میں عالمی سطح پر شہرت رکھتے تھے۔ جہاز سازی کی صنعت میں بھی بھارت کسی سے کم نہ تھا۔ فولاد کی صنعت بھی گئی گزری نہ تھی مگر کوئی بھی عجائب گھر ایسا نہیں جو بتائے کہ برطانوی راج میں کس طرح اِن تمام شعبوں میں بھارت کی برتری اور مہارت ختم کی گئی۔

پڑھیئے؛ لارڈ میکالے کا اصل تعلیمی مقالہ

برطانوی دور میں برصغیر کے لوگوں کو بہت سے مواقع پر قتل عام کا سامنا کرنا پڑا۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں برطانوی حکمرانوں نے وسطی ہندوستان کے بہت سے حصوں میں آزادی کے سپاہیوں کو غدار قرار دے کر سُولی پر لٹکایا اور اِس لڑائی میں برطانوی سلطنت کا ساتھ دینے والوں کو خوب نوازا گیا۔ 1919 میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں برطانوی فورسز نے جو قتل عام کیا اُس کا ذکر بھی کسی عجائب گھر میں نہیں ملتا۔ یہ سب کچھ یوں بھلادیا گیا ہے جیسے کبھی ایسا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ برطانوی راج کی پالیسی سے کئی بار قحط رونما ہوا جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر ساڑھے تین کروڑ ہندوستانی موت کے منہ میں چلے گئے۔ مگر اِن مصائب کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔

برطانوی حکمرانوں نے برصغیر کی جان چھوڑتے وقت بھی ایسی پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد قتل ہوئے۔ ہندوستان کی تقسیم اِس انداز سے کی گئی کہ بہت بڑے پیمانے پر نقل مکانی ناگزیر ہوگئی اور یوں فسادات پُھوٹ پڑے اور لاکھوں انسانوں کی جان گئی۔ مگر یہ سب کچھ بیان کرنے کے لیے اب تک کوئی عجائب گھر نہیں پایا جاتا۔

ضرور پڑھیں؛ ایچی سن کالج اور پاکستانی برہمن طبقہ

انتہائی حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ برصغیر میں کوئی بھی برطانوی دور کے مظالم اور ناانصافیوں کو واضح طور پر بیان کرنے والے کسی عجائب گھر کے قیام کے لیے آواز نہیں اٹھاتا۔ میں نے 2015 میں آکسفرڈ یونین ڈیبیٹ میں یہ نکتہ اٹھایا جسے خوب سراہا گیا۔ جو کچھ میں نے کہا وہ پلک جھپکتے میں وائرل ہوگیا۔ بہت سوں نے میری اس بات کی تائید کی کہ برطانوی دور کے مظالم کی نشاندہی کرنے اور اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے والا کوئی عجائب گھر ضرور قائم کیا جانا چاہیے۔ میں نے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ برطانوی حکومت سے ہندوستان پر قبضے کے دنوں کی زیادتی کا ہرجانہ بھی طلب کیا جانا چاہیے۔

میرے بھارتی پبلشر ڈیوڈ دیویدار نے مجھ سے کہا کہ جو کچھ آکسفرڈ والی تقریر میں کہا تھا اُس کی بنیاد پر کتاب لکھوں۔ میں نے کتاب لکھی جو بھارت میں ’’دی ایرا آف ڈارکنیس‘‘ کے نام سے جبکہ برطانیہ میں ’’دی انگلوریس ایمپائر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی اور یہ کتاب دونوں ممالک میں بیسٹ سیلر رہی ہے۔

جانیئے؛ برصغیر میں برٹش حکومت کے پیداکردہ چھ بڑے قحط

میں نے اس کتاب میں جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں وہ آج بھی بہت سوں کو حیران کردینے کے لیے کافی ہیں۔ برطانوی راج کے دوران ہندوستان کے لوگوں کو بیشتر معاملات میں شدید امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی معاشرتی اور معاشی زندگی میں غیر معمولی منفی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے اُن کی ترقی کا راستہ رک گیا۔ ہندوستان قدیم اور ثقافتی اعتبار سے انتہائی خوش حال ملک تھا۔ برطانوی راج کے دوران ہندوستان کے لوگ معاشرتی اور معاشی دونوں ہی سطحوں پر کچھ زیادہ کرنے کے قابل نہ رہے۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ برطانوی راج کے دوران ہندوستان کے وسائل بہت بڑے پیمانے پر انگلینڈ منتقل کیے جاتے رہے۔ انگریز یہاں کی تپتی دھوپ میں اپنے ملک کی دھند زدہ سردی کو یاد کرتے تھے مگر وطن سے محبت کا گراف اس سے کہیں زیادہ بلند تھا۔ وہ ہندوستان کو معاشی اعتبار سے کھوکھلا کرتے رہے۔

تاریخ اور ثقافت سے شغف رکھنے والے بہت سے مصنفین برطانوی راج کے دوران جو کچھ ہوا اُس کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ ضرور اختیار کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اُس عہد میں ہندوستانیوں کو پہنچنے والے بہت سے فوائد کی بات بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ریلوے نیٹ ورک کی مثال دیتے ہیں۔

لازمی پڑھیں؛ ہندوستان کی ذہنی غلامی بذریعہ نوآبادیاتی تعلیم

اُن کا استدلال ہے کہ برطانوی راج کے دوران ہندوستان کو ریلوے نیٹ ورک کا تحفہ ملا جس کی بدولت پورے ملک کو ایک لڑی میں پرونا ممکن ہوسکا۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ ریلوے نیٹ ورک کا بنیادی تصور یہ تھا کہ برطانوی حکمرانوں کو پورے ملک میں قدرتی وسائل تک آسانی سے رسائی میسر ہو اور ہندوستان سے ملنے والے اقتصادی فوائد میں اضافہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ریلوے سے اگر ہندوستانیوں کو سفر میں آسانی میسر ہوئی تو برطانوی حکمرانوں کو ملک سے مزید دولت حاصل کرنے اور ہندوستانیوں کا مزید استحصال کرنے میں سہولت ملی۔ اس حقیقت کو بہت سوں نے نظر انداز کر رکھا ہے کہ اخراجات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث ہندوستان میں ریلوے نیٹ ورک بچھانے پر آنے والی لاگت بہت زیادہ تھی۔

ہندوستان میں 1850ء اور 1870 کے عشرے میں ریلوے کا ایک کلومیٹر کا ٹریک بچھانے پر آنے والی لاگت 22 ہزار ڈالر تھی جبکہ اُسی عہد میں امریکا میں یہ لاگت صرف ڈھائی ہزار ڈالر تھی۔ ہندوستان میں ٹرین سے سفر کرنے والوں کو غیر معمولی کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا جبکہ برطانوی کمپنیوں سے وصول کیا جانے والا مال گاڑی کا کرایہ دنیا بھر میں سب سے کم تھا۔

ضرور پڑھیں؛ پاکستان کی اشرافیہ اور تعلیم کا حاکمیتی ماڈل

برطانوی راج کے گن گانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ برطانوی حکمرانوں کو انتظام و انصرام کے معاملے میں غیر معمولی مہارت حاصل تھی یعنی انہوں نے ملک کو بہت عمدگی سے چلایا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ برطانوی حکمرانوں کو ہندوستانیوں کے مفاد سے کچھ غرض نہ تھی۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ تاج برطانیہ کی بھلائی کے لیے کیا۔ جو اقدامات بظاہر ہندوستانیوں کی فلاح کے لیے تھے وہ بھی دراصل برطانوی راج کو مضبوط کرنے ہی کے لیے تھے۔

انگریز زندگی بھر تو مزے کرتے ہی تھے، ریٹائر منٹ کے بعد بھی بہت مزے کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کی پنشن ہندوستانیوں کی خون پسینے کی کمائی پر مشتمل ہوتی تھی۔ دوسری طرف ہندوستانیوں کو ریٹائرمنٹ پر معمولی سی رقم دی جاتی تھی اور پنشن اُس سے بھی کم ہوتی تھی۔

برطانوی حکمرانوں نے ہندوستان میں ایسا بہت کچھ چھوڑا جو اُن کا نہیں تھا۔ پارلیمانی نظامِ حکومت ہی کو لیجیے۔ اس نظام کو ہندوستان کی قیادت نے خوب اپنایا اور آئین کے ذریعے مستحکم کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہی برطانوی نظامِ سیاست ہے جس میں سے ہندوستانیوں کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا گیا تھا۔ برطانیہ کا نظامِ سیاست ایک ایسے ملک کے لیے ہے جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے۔ بھارت جیسے آبادی اور رقبے کے اعتبار سے بہت بڑے ملک کے لیے پارلیمانی نظام کسی بھی اعتبار سے کوئی پسندیدہ طرزِ سیاست و حکومت نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس نظام کے تحت منتخب ہونے والے قانون سازی اور اس کی پیچیدگیوں سے زیادہ دلچسپی منتظمہ کو مضبوط کرنے اور خود بھی مضبوط ہونے میں لیتے ہیں۔

متعدد جماعتوں پر مشتمل سیاسی نظام نے بھارت کو خطرناک حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ سیاسی معاملات اختلافات میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ بھارت جیسے بڑے ملک کے لیے متعدد جماعتوں پر مشتمل پارلیمانی نظام سیاست و حکومت کسی بھی اعتبار سے کارگر نہیں۔ اگر امریکا کی طرز پر دو جماعتوں والا صدارتی نظام اپنایا گیا ہوتا تو معاملات مختلف ہوتے۔ ایسے میں فیصلہ سازی کا عمل بہت عمدگی سے انجام کو پہنچتا اور قومی مفادات میں تیزی سے فیصلے کرنا ممکن ہوتا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ برطانیہ کی دوسری بہت سی سابق نوآبادیات کی طرح بھارت میں بھی پارلیمانی سیاسی نظام برقرار ہے۔

جانیئے؛ تعلیمی ڈھانچہ سیاسی نظریات کے تابع

برطانوی راج کے بہت سے قوانین آج بھی بھارتی معاشرے سے چمٹے ہوئے ہیں۔ وکٹورین عہد میں ترتیب دی جانے والی تعزیرات آج بھی بھارت میں نافذ ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں لوگ آج بھی ناکام ہیں کہ برطانوی دور میں وضع اور نافذ کیے جانے والے قوانین اب بھارت کے لوگوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ یہ قوانین ایک بہت بڑی آبادی کو کچل کر رکھنے کے لیے وضع کیے گئے تھے۔ ایک استعماری قوت اپنے زیر نگیں علاقوں کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول میں رکھنے کے لیے جو قوانین نافذ کرتی ہے وہ قوانین کسی آزاد ریاست کی بہبود کو یقینی بنانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انگریزوں کا چھوڑا ہوا قانونی اور تعلیمی ڈھانچا آج بھی ہماری اجتماعی زندگی سے چمٹا ہوا ہے اور اِس سے گلوخلاصی میں بظاہر غیر معمولی دلچسپی لینے والے خال خال ہیں۔ نو آبادیاتی دور کی اِن بلاؤں کو گلے لگانے والوں کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ اِن کے ہاتھوں بھارت کو ماضی میں کتنا نقصان پہنچتا رہا ہے اور اب بھی پہنچ رہا ہے۔ ذہنوں سے انگریزوں کی غلامی کا بیج نکال پھینکنا آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

جو کچھ انگریزوں نے بھارت سے روا رکھا اُس کی اصلیت بتانے کے لیے ایک اعلیٰ درجے کا عجائب گھر قائم کیا جانا لازم ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک آج کی بھارتی نسل کو پتا ہی نہیں چل سکے گا کہ انگریزوں نے اُن سے کیسا سلوک روا رکھا تھا۔ ہندوستانیوں کو صدیوں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ نئی نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ ماضی میں اُن کی سرزمین سے کیسا سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے۔ اگر وہ ماضی کو نہیں سمجھیں گے تو مستقبل کو سمجھنا انتہائی دشوار ہوگا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *